Kyu meray lyee aaj hay Talwaar say Barh kar
غزل
کیوں میرے لیے آج ہے تلوار سے بڑھ کر
جو دل کے چمن میں رہا گلزار سے بڑھ کر
پھنس جاؤ بھنور میں جو کبھی میری طرح تم
تنکے کو وہاں پاؤ گے پتوار سے بڑھ کر
ہوتے ہیں کف دست میں سانپوں کی طرح بھی
لیکن کوئی رشتہ بھی نہیں یار سے بڑھ کر
پامال کیا تیرے لیے اپنا تشخص
ہوتا تو نہیں کوئی بھی دستار سے بڑھ کر
دنیا میں فقط ایسا ہے اک باپ کا رشتہ
جو دھوپ میں ہے سایہء اشجار سے بڑھ کر
ہوتا ہے وہاں رقص کناں شب کا مسافر
دیکھے جہاں چہرہ کوئی انوار سے بڑھ کر
ٹوٹے گی ذرا سوچ لے پھر سانس کی ڈوری
نکلا جو بدن روح کی رفتار سے بڑھ کر
تابشِ جو مصیبت میں رہے ساتھ ہمیشہ
کوئی بھی نہیں ایسے مددگار سے بڑھ کر
شہزاد تابش
Shahzad Tabish