Gul kay Honay ki Tawqoo pa jyee Bethi Hoon
غزل
گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے
تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر
شمع تو چربی کو آنکھوں میں دیئے بیٹھی ہے
تشنہ لب کیوں رہے اے ساقیٔ کوثر چنداؔ
یہ ترے جام محبت کو پیے بیٹھی ہے
ماہ لقا بائی چندا
Mah laqa Baaee Chanda