غزل
گھر تو لٹتا ہے مگر ہم کو مٹانے والے
کون سے دیس سے لائیں گے زمانے والے
دھوپ بخشی ہے تو پھر سایۂ دیوار بھی دے
لوگ سورج کو ہیں معبود بنانے والے
دل کو آمادۂ تجدید وفا کیسے کروں
رس رہے ہیں ابھی ناسور پرانے والے
یوں تو ملتے ہیں ہر اک جسم پہ بے داغ لباس
اٹھ گئے دل پہ مگر داغ اٹھانے والے
گھر میں گھر کی کوئی صورت تو نکالیں عابدؔ
آنے والے ہیں کبھی کے نہیں آنے والے
عابد جعفری