گھر گھر تجلیاں ہیں طلب گار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالب دیدار بھی تو ہو
دل درد ناک چاہیے لاکھوں ہیں خوبرو
عیسیٰ ہیں سیکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
گر ہم نہیں تو رونق بازار عشق کیا
اے حسن خود فروش خریدار بھی تو ہو
پردے میں چاہتا ہے کہ ہنگامہ ہو بپا
اے آفتاب حشر نمودار بھی تو ہو
اتنی اداس صحبت مے واہ مے کشو
دست سبو میں شیخ کی دستار بھی تو ہو
زاہد امید رحمت حق اور ہجو مے
پہلے شراب پی کے گنہ گار بھی تو ہو
سوؤں میں آ کے دھوپ سے پاؤں اماں مگر
راضی تمہارا سایۂ دیوار بھی تو ہو
ساقی اداس کیوں نہ ہو بزم مے و سبو
مے خانہ میں امیرؔ سا مے خوار بھی تو ہو
امیر مینائی