ہائے یہ کیسا غضب اے چشمِ پُر فن کردیا
دل مرا مومن تھا جسکو تو نے میمن کردیا
ظُلمتِ شب میں جلائے دل کے داغوں کے چراغ
عشق نے ہر اشک کو بادام روغن کردیا
جلوہء تہذیبِ حاضر کی ترقی کے نثار
مرد کو چھکڑا کیا عورت کو انجن کردیا
کل کہا یہ ایک “مِس“ کے جلوہء بیباک نے
اے کراچی جا! تجھے صد رشکِ لندن کردیا
ہے کبھی مجھ سے شناسائی کبھی اغیار سے
اس روش نے تجھ کو ہر تھالی کا بینگن کردیا
اے پروڈا! تیری بھٹّی سے جو بچ نکلا وزیر
پہلے وہ سونا تھا اس کو تم نے کندن کردیا
فاتحہ پڑھنے وہ آئے بعد مردن اے مجید!
اور لحد کی خاک کو دانتوں کا منجن کردیا
مجید لاہور ی