ہر ایک دور میں منظر بدلتے رہتے ہیں
ہماری فکر کے محور بدلتے رہتے ہیں
حریم جاں کو منور کریں گے کیا وہ چراغ
کہ جن کے طاق برابر بدلتے رہتے ہیں
نہ حوصلہ تھا جنہیں قسمتیں بدلنے کا
وہ کم سواد فقط گھر بدلتے رہتے ہیں
طرح طرح کے ملے زخم دل تو حیرت کیا
کہ چارہ ساز بھی نشتر بدلتے رہتے ہیں
عجیب شخص مری زندگی میں آیا ہے
کہ جس کے پیار کے محور بدلتے رہتے ہیں
کبھی بقا کا جزیرہ کبھی فنا ساحل
سفینہ ایک ہے لنگر بدلتے رہتے ہیں
گریں درخت سے پتے تو کیوں خزاں کہئے
لباس ہی تو ہیں اکثر بدلتے رہتے ہیں
ہمارے دور میں ایسے پرند بھی ہیں عیاںؔ
کہ رت کے ساتھ ہی وہ پر بدلتے رہتے ہیں
رشیدہ عیاں