ہر قدم اک خط اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں
وہ رم و رفت کس انداز میں رکھے ہوئے ہیں
عمر بھر ان کے تعاقب میں رہے اور کھلا
خاک پیمائی کو آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
ایک رسمی سا تعارف تھا ملاقات نہ تھی
اور ہم سادہ اسے راز میں رکھے ہوئے ہیں
قمری و بلبل و طاؤس و رباب و نے و چنگ
سب اسی حسن کو آواز میں رکھے ہوئے ہیں
یہ جو پلکوں میں دم شب ہیں چلے آئے چراغ
کسی مہتاب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
وہ رخ حسن سماعت ہے کسی اور طرف
ہم عبث درد کو آواز میں رکھے ہوئے ہیں
جاوید احمد