غزل
ہر پرندے کی بات سنتا ہے
بے زباں پیڑ سب سے اچھا ہے
جس قدر ہم نے بھید سمجھا ہے
کوئی منزل نہ کوئی رستہ ہے
ان اندھیروں کو کس لئے کوسیں
روشنی بن کے پھول کھلتا ہے
چلنے والا نکل گیا آگے
قافلہ راستے میں ٹھہرا ہے
جس کی خاطر ہیں جاگتے رہے ہم
وہ ابھی پالنے میں سوتا ہے
ان دنوں میں ہوں تنہا تنہا سا
ایک گم سم خیال رہتا ہے
بے گھروں کے قدم نہیں رکتے
ان کا آنگن تمام دنیا ہے
دل بہلتا ہجوم میں رہ کر
خود سے ڈرتا ہوا وہ تنہا ہے
کل کی باتوں سے بے خبر ہم ہیں
سات جنموں کا کیا بھروسا ہے
دیپک قمر