ہم رخِ آگہی بدلتے ہیں
اے جنوں تیرے ساتھ چلتے ہیں
جن سے ہوتا ہے ظلمتوں کو فروغ
ایسے بھی کچھ چراغ جلتے ہیں
وقت جس راہ سے گزرتا ہے
حادثے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
تیز کتنی ہے دھوپ کی رفتار
سائے کی طرح لوگ ڈھلتے ہیں
کچھ تعین نہیں ہے منزل کا
ہم فقط راستے بدلتے ہیں
ان کے ہاتھوں سے پی رہے ہیں فدا
دیکھئے اب کہاں سنبھلتے ہیں
فدا خالدی