غزل
ہم نے سوچا ہے کہ اب زخم سنبھالے جائیں
دل میں کانٹے جو چبھے ہیں وہ نکالے جائیں
دسترس میں ہے نہ تو اور نہ تیری الفت
اب کے آنکھوں میں ترے خواب نہ پالے جائیں
ضبط کو میرے مرا جرم سمجھنے والے
میرے آنسو نہ ترا تخت بہا لے جائیں
جن کو جانا ہے وہ جائیں گے مگر یاد رہے
آپ گر جائیں تمنائیں اٹھا لے جائیں
زخم کھا کر ہی سہی ہم نے یہ سیکھا آخر
بار امید کے یاروں پہ نہ ڈالے جائیں
دل نہیں مانتا ہرگام یہی چاہتا ہے
خود ہی آئیں وہ ہمیں اور منا لے جائیں
ہم نے سیکھا ہے یہی اپنے بڑوں سے عمران
اج کے کام کبھی کل پہ نہ ٹالے جائیں
احمد عمران اویسی