ہمارے ذوقِ رفاقت سے بے خبر ٹھہری
حیاتِ حلقہءِ احباب مختصر ٹھہری
جنوں کی کار گزاری پہ حرف آیا ہے
کہ بور بور ریاضت بھی بے ثمر ٹھہری
برنگِ گل میں رہا تازگی سے ہم رشتہ
مرے مزاج کی خوشبو نگر نگر ٹھہری
وہ جس نے لفظوں کی حرمت کو معتبر رکھا
اسی کی ذات زمانے میں معتبر ٹھہری
نئے مزاج نے سب کچھ بدل دیا یکسر
پرانی سوچ کی یلغار بے اثر ٹھہری
چمن کی سیر عجب تازگی کی حامل تھی
ہوائے صبح سے ہر بات خوب تر ٹھہری
کسی کے حسنِ طلب سے رہے ہیں وابستہ
یہ زندگی تو ہمیشہ ہی حیلہ گر ٹھہری
یوسف خالد