ہیں دِگر گُوں ، اس قدر حالات ، پیارے ،شہر میں
ہم نکلتے ہی نہیں اب ،غم کے مارے ، شہر میں
تتلیوں سے کھیلنے کے دن ہیں جن پھولوں کے وہ
بیچتے ہیں ٹافیاں ، گیندیں ، غبارے ، شہر میں
اب کوئی دِکھتا نہیں ، کاسوں میں سِکّے ڈالتا
بس بھکاری ہی نظر آتے ہیں سارے شہر میں
چوک چورَاہَوں پہ ہے اب اجنبیت کا سَماں
غیر ہیں اب موسم و منظر ، ہمارے شہر میں
اب دِیا تک بھی نہیں روشن فصیل ِ شہر پر
جِھلمِلاتے تھے کبھی ہر سُو ستارے شہر میں
نفرتوں کے چھَپ رہے ہیں کیوں ضمیمے جا بجا
ہَونگے شائع کب محبت کے شُمارے شہر میں ؟
احمدرضاراجا