loader image

MOJ E SUKHAN

یوسف عزیر: ایک پرانے کرب کی نئی صدا

یوسف عزیر: ایک پرانے کرب کی نئی صدا

انجم سلیمی

فیس بک پر اکثر ہم شاعری تلاشنے نہیں آتے، مگر کچھ شاعری ہمیں خود تلاش لیتی ہے—دل کی گہرائیوں سے، یاد کے دہانے سے، اور وقت کے ایسے لمحے سے جو ہم نے خود کبھی پوری طرح جیا ہی نہیں تھا۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر یوسف عزیر کی شاعری بھی ایسی ہی ایک حیرت ہے۔ وہ نئی صدا ہے، مگر اس کی بازگشت صدیوں پرانی دکھتی ہے۔
عزیر کے اشعار میں صرف لفظ نہیں ہوتے، یادیں ہوتی ہیں، زخم ہوتے ہیں، اور ایک ایسا سوال جو ہر عاشق، ہر مسافر، ہر تنہا روح نے اپنے آپ سے کبھی نہ کبھی ضرور کیا ہوتا ہے۔
تری پکار پہ ہر بار میں ہی آتا ہوں
مجھے بتا کہ تُو کس کو بلانا چاہتا ہے
یہ صرف سوال نہیں، ایک تھکی ہوئی وابستگی کی کراہ ہے۔ ایک ایسا بندھن جو ہر بار لوٹ آتا ہے، چاہے دروازہ کھلے یا نہ کھلے۔ یوسف عزیر کے ہاں جذبہ، جبلت اور جمال—تینوں کسی پرانی روح کی وراثت معلوم ہوتے ہیں۔
ہم ایک دوجے کے سائے میں چلتے آئے ہیں
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آیا
محبت، جدائی، خود سے بیگانگی، خواب اور وحشت—یہ سب اس کی شاعری میں کسی شور کے بغیر، کسی تاثر کے بغیر چیختے ہیں۔ اُس کی شاعری میں ایک ایسا خالی پن ہے جو مکمل لگتا ہے، اور ایک ایسی مکملیت جو ادھوری دکھتی ہے۔
تم سے پہلے میں نا مکمل تھا
پھر تمہاری کمی نے پورا کیا
ایسا لگتا ہے جیسے عزیر لفظوں سے مکالمہ نہیں کرتا، بلکہ ان میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ وہ قافیہ نہیں باندھتا، خود کو باندھتا ہے کسی سوال میں، کسی سائے میں، کسی ادھورے خیال میں۔
میری نشست اُس سے ذرا دور تھی مگر
میں اُس کے ساتھ خالی جگہ دیکھتا رہا
کیا یہ شاعری ہے یا خودکلامی؟ کیا یہ شکوہ ہے یا گواہی؟ یوسف عزیر کی غزلیں محبت کی تھکن کا وہ روپ ہیں جو نہ چیخ سکتا ہے، نہ رو سکتا ہے، بس چپ چاپ جلتا ہے اور جل کے روشنی کرتا ہے۔
میں ضم تو ہو ہی گیا ہوں زمین والوں میں
مرا غبار ابھی کہکشاں سے باہر ہے
ہمیں لگتا ہے کہ عزیر نئے آدمی ہیں۔ مگر غور کرو، تو وہ صدیوں پرانا وہی مسافر ہے جو ہمیشہ خود کی تلاش میں رہا۔ اُس کی شاعری بتاتی ہے کہ
ہر نئی سطر، دراصل ایک پرانا زخم ہے جو وقت کے نئے کاغذ پر پھر سے تازہ ہوا ہے
شیخوپورہ کی مٹی نے یہ کیسا عمدہ شاعر جنما ہے کہ لفظ لفظ میں دھواں ہے اور ہر مصرع آگ کی مانند ہے—مگر جلانے کے لئے نہیں، جلنے کے احساس کو سمجھانے کے لئے۔
یوسف عزیر! تمہاری شاعری کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ لفظ اب صرف حرف نہیں رہے—یہ آئینہ بھی ہیں، زخم بھی، اور راستہ بھی۔
ہم منتظر ہیں، تمہارے مزید خوابوں، مزید سچائیوں، اور تمہاری اسی کمی کے جو شاید ہم سب میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔
چند منتخب اشعار
تری پکار پہ ہر بار میں ہی آتا ہوں
مجھے بتا کہ تُو کس کو بلانا چاہتا ہے
وہاں سے پردہِ عالم بھی زد پہ آئے گا
تُو جس مقام پہ کھڑکی لگانا چاہتا ہے
اِک مسافر گزر چکا مجھ سے
جانے اب کس کا راستہ ہوں میں
اور کیا کیا پڑا ہوا تھا وہاں
جس جگہ سے تجھے ملا ہوں میں
سننے والا ہی آ کے بتلائے
کس کو آواز دے رہا ہوں میں
ہم ایک دوجے کے سائے میں چلتے آئے ہیں
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آیا
اسی خبر پہ کہانی کا اختتام ہوا
بہت دنوں سے عزیر اپنے گھر نہیں آیا
تم سے پہلے میں نا مکمل تھا
پھر تمہاری کمی نے پورا کیا
بنتے بنتے بھی رہ گیا تھا کچھ
آدمی آدمی نے پورا کیا
کوئی پورا نہ تھا مگر سب کو
ایک جیسی کمی نے پورا کیا
سوچ سکتا ہوں تجھے دیکھ نہیں سکتا میں
کیا بتاؤں کہ تجھے میں نے کہاں رکھا ہے
اُس نے رکھا ہے مجھے ساتھ تو اپنے لیکن
دل ہی رکھا ہے مرا دل میں کہاں رکھا ہے
بے خیالی نے اٹھا کر یہ مرا پاؤں عزیر
جس جگہ کوئی نہیں پہنچا وہاں رکھا ہے
کہیں یہ خواب مری راہ میں نہ پڑتا ہو
میں اپنے خواب سے آگے بھی جا کے دیکھوں گا
نکل چکا ہوں زمیں سے میں واپسی کے لئے
جو رہ گیا ہے تماشا وہ آ کے دیکھوں گا
بتا رہا تھا مجھے کوئی میرے بارے میں
سنا رہا تھا کہانی سنی سنائی ہوئی
بغیر سمجھے اٹھایا تھا بارِ کوزہ گری
بنا رہا تھا میں شکلیں بنی بنائی ہوئی
وہ میرے بعد کسی اور کی محبت ہے
لٹا رہا ہے وہ دولت مری کمائی ہوئی
نقش اپنا ترے چہرے پہ میں چھوڑ آیا ہوں
آئینہ دیکھ مری جان مجھے یاد میں لا
تجھ کو آنا تو بہر طور ہے میری جانب
اپنے آنے کو مری عمر کی میعاد میں لا
تم نئے آدمی ہو کیا مطلب؟
آدمی تو بہت پرانا ہے
یہ کہیں اُس کا راستہ ہی نہ ہو
راستے سے جسے ہٹانا ہے
اپنے اندر اتر چکا ہوں میں
یہ مرا آخری ٹھکانہ ہے
وہ اُداسی ہے مرے دل میں کہ ہر چہرے پر
ایک بچھڑے ہوئے انساں کا گماں ہوتا ہے
آدمی یاد میں آئے تو سمجھ آتا ہے
آدمی یاد نہ آئے تو کہاں ہوتا ہے
ترے علاوہ مجھے کون زخم دینے لگا
نیا نشان پرانے نشاں سے باہر ہے
کوئی تو ہوگا جو بننے سے رہ گیا ہوگا
کوئی تو ہوگا جو کون و مکاں سے باہر ہے
میری نشست اُس سے ذرا دور تھی مگر
میں اُس کے ساتھ خالی جگہ دیکھتا رہا
کچھ اور دیکھنے کو نہیں تھا کہ دیکھتا
سو وقت کو گزرتا ہوا دیکھتا رہا
اندر پرانے زخم کی صورت بگڑ گئی
میں چہرہ آئینے میں کھڑا دیکھتا رہا
میں روح بن کے پھرتا رہا جسم جسم اور
میرے بدن کو مجھ سے ملایا نہیں گیا
تم کہہ رہے ہو بارِ محبت بھی لاد لوں
مجھ سے تو اپنا بوجھ اٹھایا نہیں گیا
تری تلاش میں بھٹکا تو یاد آنے لگا
وہ ایک گھر جو ترے واسطے بنایا تھا
میں گھورتا ہوں بجھا کر دیا سلائی کو
کہ بھولتا ہوں اسے کس لیے جلایا تھا
تجھ پہ لازم تھا اتر آتا فلک سے فوراً
جس طرح تجھ کو پکارا تھا خدایا میں نے
اُس کو معلوم کہاں اُس سے بچھڑنے کے سمے
کیسے اُترے ہوئے چہرے کو اٹھایا میں نے
مکیں کے ہوتے ہوئے رابطہ مکاں سے ہوا
مکالمہ جو ہوا بھی تو بے زباں سے ہوا
میں اُس کی سمت جو نکلا ، تو کچھ نہیں تھا وہاں
وہیں کھڑا تھا اشارہ مجھے جہاں سے ہوا
تمہارے بعد بدن میں تلاش کرتا ہوں
میں اپنے آپ میں خالی کہاں کہاں سے ہوا
عمر ساری کٹ گئی دونوں کی دروازے کے ساتھ
میں نے دستک دی نہیں اور اُس نے در کھولا نہیں
سانحے کی اور کیسی شکل ہوتی ہے عزیر
اُس نے دل پر ہاتھ رکھا اور دل دھڑکا نہیں
جھکنا پڑتا ہے مجھے زخم کھجانے کے لئے
اتنی زنجیر کہاں پاؤں اٹھانے کے لئے
لوگ سمجھے ہیں محبت کو لئے بیٹھا ہوں
حادثے اور بھی ہوتے ہیں سنانے کے لئے
منتظر گھر میں مرے کوئی نہیں ہوتا تھا
دیر کرتا تھا فقط دیر سے آنے کے لئے
بتا رہا ہوں مرے گرد روشنی کم ہے
بتا رہا ہوں مرے گرد چھا رہا ہے غبار
جو مجھ سے آگے ہیں مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں مجھے
کہ میرے پاؤں سے آگے بھی جا رہا ہے غبار
نہ جانے کتنے مناظر نظر سے گزرے نہیں
کہ میرے پیچھے مسلسل پڑا رہا ہے غبار
میں سانس لوں بھی تو زندہ شمار ہوتا نہیں
ہوا کے ساتھ مرا رابطہ اضافی ہے
میں ابتدا میں ترے ہاتھ آ گیا ہوں مگر
مرا وجود سر انتہا اضافی ہے
اپنی مجبور محبت کا نشاں چھوڑ گیا
چھوڑنے والا مرے جسم میں جاں چھوڑ گیا
اتنی تعداد میں ہیں چھوڑ کے جانے والے
یاد رہتا ہی نہیں کون کہاں چھوڑ گیا
اب میں پوروں پہ گنوں اور بتاؤں تجھ کو
یہ بتاؤں کہ فلاں اور فلاں چھوڑ گیا؟
بیٹھ جاتا ہوں ترے شہر کو جاتی بس میں
پھر ترے شہر سے پہلے ہی اُتر جاتا ہوں
میں زمانے کی طرح پھرتا ہوں گلیوں گلیوں
اپنی مرضی سے کہیں سے بھی گزر جاتا ہوں
جانے کس وہم میں رہتی ہے محبت میری
تُو اگر یاد نہ آئے تو میں ڈر جاتا ہوں
ایک لمبے سفر کے بعد مجھے
مختصر زندگی گزارنی ہے
پھر سے کچھ یاد آ گیا ہے مجھے
پھر سے گزری گھڑی گزارنی ہے
ورنہ کچھ بھی نہیں ہوا مجھ کو
میری وحشت برائے وحشت ہے
میرے پیچھے صدائے کن ہے عزیر
میرے آگے صدائے وحشت ہے
میں نے دیکھا تھا اُسے، اس نے کسی اور طرف
ہر کوئی اپنے سے بہتر کی طرف دیکھتا ہے
خوف آتا ہے مجھے اس کی شکایت سے عزیر
خالی نظروں سے جو اُوپر کی طرف دیکھتا ہے
کچھ دیر پہلے تک میں تمہارے ہی ساتھ تھا
آواز دے کے دیکھ کہاں رہ گیا ہوں میں
ہم دونوں ایک ساتھ ہی بھٹکے تھے راہ سے
تم بھی وہیں کہیں ہو جہاں رہ گیا ہوں میں
وگرنہ اس کے برابر کا کوئی شخص نہیں
تمہارے ساتھ جو کمتر دکھائی دیتا ہے
وہ میری آنکھ سے باہر دکھائی دیتا نہیں
جو میری آنکھ کے اندر دکھائی دیتا ہے
مری نظر کا شرر اپنا کام کرنے لگا
بجھا چراغ مرے دیکھنے سے جلنے لگا
ازل ابد کے کناروں میں کھینچا تانی ہوئی
ردائے وقت پہ جب میرا ہاتھ پڑنے لگا
تُو جو نکلا تو دوسروں کے لئے
مجھ میں آنے کا راستہ نکلا
اُس کو اچھا لگا نہ جب پہلا
پھر بدن سے میں دوسرا نکلا
دریا ہوں مگر اپنی روانی سے بنا ہوں
میں آنکھ سے نکلا ہوں کہ پانی سے بنا ہوں
عجلت میں بنا اور مکمل نہ بنا جو
وہ نقش تری نقل مکانی سے بنا ہوں
ہر سانس ڈالتی رہی دیوار میں دراڑ
اِک بوجھ میرے دل کا، در و بام پر رہا
یہی گلہ ہے کہ تُو نے بھی سرسری دیکھا
تُو آئینے کے برابر دکھا رہاہے مجھے
میں اِس طرف سے نہ بڑھتا تو ختم ہو جاتا
وہ اس طرف سے برابر گھٹا رہا ہے مجھے
مسئلہ میری دہائی سے کہیں آگے ہے
درد اب تیری جدائی سے کہیں آگے ہے
میں نے مانگا ہی نہیں اُس کو پشیمانی میں
بے کسی داغِ گدائی سے کہیں آگے ہے
یہاں وہاں کی اذیت میں یہ بھی دھیان رہے
جہان دو ہی رہیں تیسرا جہاں نہ بنے
کسی طرف سے گلی اِس طرف نہیں آتی
جگہ ملی ہے مجھے جس جگہ مکاں نہ بنے
عجب تناؤ سا رہتا ہے اِک دعا کو لئے
خدا کو دیکھتا رہتا ہوں میں، خدا مجھ کو
خدا سے کہئے مکافات میں بھی گڑبڑ ہے
عذاب اس کو ملے بھی تو میں عذاب میں ہوں
اب بچھڑنے کے بعد کیا سوچیں
کیا نہیں اور کیا ضروری تھا
میں اسے سوچتا رہا اس وقت
جب اُسے دیکھنا ضروری تھا
اُس نے روکا چند لمحوں کے لئے
میں نے اپنی ساری گھٹری کھول دی
اِک گرہ کے آپ کھلتے ہی عزیر
جو گرہ بھی میں نے دیکھی, کھول دی
اُس کا شمار ہوگا تماشے میں یا نہیں
جو وقت کٹ گیا مرا پردے کی اوٹ میں
سیے بغیر ہی اک زخم سل گیا میرا
پھر اپنے آپ سے میں شرمسار ہونے لگا
پلٹ کے جانے کو تُو آ گیا ہے اور اِدھر
نئے سرے سے ترا انتظار ہونے لگا
جانے اُس کے جی میں کیا آئی کہ وہ
چلتے چلتے راستہ دینے لگا
میں مثال ایسی بنا کہ میرے بعد
جس نے جو مانگا خدا دینے لگا
گزرے ہوئے دنوں سے نکل آیا ایک دن
پھر میں کسی کے ہاتھ دوبارہ نہیں لگا
آواز لگی تھی کہ بدن اوڑھ لو آ کر
تاخیر سے پہنچا تو یہی ہاتھ میں آیا
جھگڑا بھی ہوا ختم سو قصہ بھی ہوا ختم
میں کیا کروں میں آخری لمحات میں آیا
پھر درد کے مرکز سے تری یاد اٹھی تھی
پھر زلزلہ کل رات مضافات میں آیا
اِس لئے اُس نے بھی پوری نہ سُنی بات مری
میں نے رب سے ترے بارے میں نہیں پوچھا تھا
تم آ گئے ہو تو احساس ہو رہا ہے کہ ہوں
تمہارے آنے سے پہلے کہاں میں ہوتا تھا
پکارنا ہے تو پھر زور سے پکار مجھے
میں اب وہاں پہ نہیں ہوں جہاں میں ہوتا تھا
وہ مجھ سے آگے نکل کر بھی ڈھونڈتا ہے مجھے
جسے دیا ہے گزرنے کا راستہ میں نے
جدھر بھی جائے چلی جائے مجھ سے دور کہیں
ہوا کے رخ پہ محبت کو رکھ دیا میں نے
میری تشکیک کی زد میں ہی نہیں آئے تم
ورنہ کیا ہے جو مری آنکھ سے دل میں اترے
دانہ بھی نہیں تھا کہ پرندوں کو کھلاتے
مانوس وہ ایسے تھے کہ اڑتے بھی نہیں تھے
شکل کیسی ہے مری مجھ کو بھی معلوم کہاں
جسم کے خول سے نکلوں تو نظر آؤں میں
یہ جو دھندلا سے گئے ہیں تری یادوں کے نقوش
یہ کہیں موت سے پہلے کی اذیت تو نہیں؟
بہانہ گرچہ بنی مرگِ ناگہاں لیکن
اسے خبر تھی میں دنیا سے جانے والا ہوں
شاعری || عزیر یوسف