غزل
یہ اور بات کہ یہ سحر بیش و کم پہ چلا
سیاہ رات کا جادو مگر نہ ہم پہ چلا
ادھر سے پہلے بھی کچھ سرفروش گزارے تھے
رہ طلب میں نشان قدم قدم پہ چلا
یہ طائران چمن کا نصیب کیا کہئے
وہ تیر ان کے لیے وقف ہے جو کم پہ چلا
خدا خدا کے اشارے پہ لوٹ لوٹ گیا
تڑپ تڑپ کے طریق صنم صنم پہ چلا
کبھی خدا کی پرستش کبھی ثنائے بتاں
رہ عرب پہ کبھی جادۂ عجم پہ چلا
اسیر دام نہ ہوگا مرا دل آزاد
کسی کا حکم کبھی موج یم بہ یم پہ چلا
تجھے بھی دیکھ لیا ہم نے او خدائے اجل
کہ تیرا زور چلا بھی تو اہل غم پہ چلا
یہ نقش پا ہیں کہ زنجیر موج خوں یارو
یہ کون طرفہ جواں جادۂ ستم پہ چلا
لب و نگاہ پہ مہریں لگی رہیں طاہرؔ
کسی کا زور نہ لیکن مرے قلم پہ چلا
جعفر طاہر