یہ سانحہ بھی دیکھا ہے ہم نے نصیب سے
اس نے سلام بھیجا ہے ہم کو رقیب سے
نازاں تھے اپنے حسن پہ گل یہ گلاب کے
دیکھا نہیں تھا آپ کو جب تک قریب سے
لے دیکھ سارے شہر میں چرچا ہے وصل کا
کس نے کہا تھا راز اگل دے خطیب سے
اب تو دیا جلانا لہو سے ہے لازمی
ان دھیرے چھا رہے ہیں جو ہر سو مہیب سے
ان کے لبوں پہ حرف تشفی کے آ گئے
لگتا ہے حال پوچھ لیا ہے طبیب سے
تعبیر کے خیال سے لرزاں ہوں آج کل
دیکھے ہیں خواب میں نے عجیب و غریب سے
سید غضنفر علی