یہ سمجھ لیں کفِ افسوس بھی مل سکتے ہیں
آپ چلنے کو مرے ساتھ میں چل سکتے ہیں
جادہء عشق پہ چلنا ہے تو پھر دیر نہ کر
سوچنے سے ترے جذبات بدل سکتے ہیں
شدتِ پیاس کے احساس کو بڑھنے دیجے
ایڑیوں سے کبھی چشمے بھی ابل سکتے ہیں
اک تو ویسے ہی اداسی کی گھٹا چھائی ہے
اور چھیڑو گے تو آنسو بھی نکل سکتے ہیں
آپ مظلوم کے اشکوں سے نہ کھلواڑ کریں
یہ وہ دریا ہیں جو شہروں کو نگل سکتے ہیں
اپنی یادوں کو مرے پاس نہ آنے دیجے
ورنہ سوئے ہوئے ارمان مچل سکتے ہیں
آپ ایسے نظر انداز ہمیں مت کیجے
کھوٹے سکے کبھی بازار میں چل سکتے ہیں
جن کو دیوانہ سمجھتے ہیں یہ دنیا والے
ضد پہ آئیں تو ہہ تقدیر بدل سکتے ہیں
روشنی کے لئے مختار جلائے تھے چراغ
کیا خبر تھی کہ مرے ہاتھ بھی جل سکتے ہیں
مختار تلہری ثقلینی