یہ نہ پوچھو کس طرح حاصل ہوا کیوں کر ملا
جستجو کام آگئی میری تو ان کا در ملا
دل بھی ملتا اور آنکھیں بھی تو تھا ملنے کا لطف
یوں تو ملنے کے لئے یہ بے وفا اکثر ملا
حسن والوں میں تھا جلوہ کس کے حسنِ پاک کا
جو ملا عمدہ ملا، اچھا بلا بہتر ملا
شکوۂ بے داد کی ہمت نہ مجھ کو ہو سکی
عرصۂ محشر میں یوں وہ فتنۂ محشر ملا
جامِ صہبا کو ہے شاید جامِ جم سے کچھ لگاؤ
سارے پردے اُٹھ گئے میکش کو جب ساغر ملا
طور کی عظمت مرے دل میں سمائی اس قدر
اپنا ماتھا رکھ دیا جو راہ میں پتھر ملا
رکھتے تھے در پردہ مطلب ملنے والے آپ کے
کچھ ملا تا زندگی بے لوث تو افسر ملا
افسر صدیقی امروہوی